Sunday, August 28, 2022

افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔ پختونخواہ میں جو طوفانی بارشیں اور سیلاب آیا ہے وہ پانی بھی دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہو گا۔ یہ جمع ہونے والا ریلہ ابھی کالاباغ کے مقام تک نہیں پہنچا لیکن جلد پہنچنے والا ہے۔ اس کے بعد میدانی علاقہ ہے او یہ بڑا ریلہ تب تک تباہی مچاتا رہے گا جب تک بحرہ عرب میں جا کر نہیں گر جاتا۔ کچے کا سارا علاقہ ڈوبے گا، ڈیرہ اسماعیل خان کے ساتھ ساتھ بھکر کا کچھ حصہ متاثر ہوگا، تباہی در تباہی ہو گی لیکن کسی قسم کی کوئی تیاری نہیں کی گئی ہے۔
کالاباغ ڈیم ہوتا تو یہ سارا پانی سٹور ہو جانا تھا لیکن ڈیم بن گئے تو بجلی کے “کارخانے” لگا کر حکمران تگڑا کمیشن کیسے کھائیں گے، سولر پلیٹ کیسے بیچیں گے؟

یہ سب میٹھا پانی ہے۔ اربوں ڈالر مالیت کا یہ میٹھا پانی اربوں ڈالر مالیت کی تباہی مچاتا ہوا سمندر میں جا گرے گا۔ چند ماہ بعد خشک سالی ہو گی۔
ستر سال سے اسی سیلاب اور خشک سالی کے درمیان جی رہے ہیں۔ ایک کالاباغ ڈیم اربوں ڈالر کا میٹھا پانی بچاۓ گا، اربوں ڈالر کا نقصان بچائے گا اور اربوں ڈالر کی سستی بجلی الگ سے فراہم کرے گا۔ جو قومیں فیصلے نہیں کرتیں ان کی قسمت میں بھوک، سیلاب اور خشک سالیاں ہوتی ہیں خوشحالیاں نہیں۔

Monday, August 22, 2022

پلاسٹک کیسے ایجاد ہوا


پلاسٹک آج ہماری زندگی کی ایک اہم ترین ضرورت میں شمار ہوتا ہے۔شائد ہمارا پلاسٹک کے بغیر زندگی کا تصور اب ممکن نہیں رہا۔اگر ہماری زندگی سے پلاسٹک کو نکال دیا جائےتو ہم بہت سی مشکلات کا شکار ہوجائیں۔کیونکہ اس حیرت انگیز چیز نے ہماری زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ لیکن بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اس کی ایجاد با لکل غیر ارادی اور اتفاقی تھی۔ جیسے اس سے پہلے بھی اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بتایا جا چکا ہے کہ ماچس’ چپس’ کارن فلیکس’ مائیکرو ویو اون وغیرہ بھی اتفاقی ایجاد ات تھیں ۔ آئیے آج اپنے دلچسپ معلومات پیج کے دوستوں کو بتاتا ہوں کہ پلاسٹک کیسے اور کب ایجاد ہوا۔

بیلجئن کیمیا داں ” لیو بیک لینڈ” 1907ء میں لاکھ یا سُریش کا متبادل بنانے کے لیے تجربات کر رہا تھا۔ جس کو وہ مختلف پارسل کو بند کرنے کے لئے تیار کرنا چاہ رہا تھا۔ اس نے فامل ڈی ہائیڈ اور کول تار سے حاصل کردہ ایک تیزابی محلول فینائل کو ملا کر سریش بنانے کی کوشش کی لیکن ناکام ہو گیا۔ بہرحال اس نے اس محلول میں لکڑی کا بُرادہ اور ایسبیسٹاس ملا کر اسے ایک کڑاھی میں ڈال کر پکایا تو ایک ایسا مادّہ تیار ہو گیا جو لچک دار ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط اور حرارت برداشت کرنے والا بھی تھا۔ اس نے اپنی اس اتفاقی ایجاد کو ’’بیک لائٹ‘ ‘ کا نام دیا۔ وہ اسے ’’ہزاروں استعمالات والا مادّہ‘‘ کہا کرتا تھا۔ جلد ہی اس مادّے کا استعمال عام ہو گیا۔اور اس میں بہتری سے بہتری کے لئے تجربات ہونے شروع ہوگئے ۔ جو چیزیں پہلے لکڑی، ہاتھی دانت، سنگِ مرمر سے بنائی جاتی تھیں اور عام لوگ انہیں خرید نہیں سکتے تھے اب اس مادّے سے تیار کی جانے لگیں۔اور اس حیرت انگیز ایجاد نے ہماری زندگیوں کا رخ ہی تبدیل کردیا۔ اب آپ کو فرنیچر’ کھلونوں ‘جہازوں’ گاڑیوں’ دفاتر’ گھروں’ الیکٹرونکس اشیاء وغیرہ وغیرہ ہرجگہ پلاسٹک کا استعمال باکثرت نظر آئے گا۔

بہرحال پلاسٹک 1907ء میں اتفاقی طور پر ایجاد ہوا تھا۔ اور یہ بھی ا للہ کا ہی فضل ہے ۔جو اس نے حضرت انسان پر فرمایا ہے۔ بس اللہ ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر ادا کرنے کی توقیق عطاء فرمائے

Friday, August 19, 2022

💕موضوع موت اور آج کا انسان💕

 💕موضوع موت اور آج کا انسان💕


اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآنِ مجید مین اِرشاد فرماتا ہے كُلُّ نَفْسٍ ذَآىٕقَةُ الْمَوْتِ 

 ’’ہرجان کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔‘‘

*تحریر سید ذوالکفل بنوی*

موت ایک ایسی خقیقت ہے جو برحق ہے اور ایک دن ہم سب نے مر جانا ہے اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو پیدا فرمایا۔ آیتِ کریمہ ’’کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ‘‘ کے مطابق ہرایک کو یہاں سے جاناہے۔

عرفِ عام میں ’’موت‘‘ جان نکل جانے کا نام ہے، یعنی جب روح جسم سے نکل جاتی ہے تو اس کو ’’موت‘‘ کہتے ہیں۔ علماء نے ’’موت‘‘ کا معنی کیا ہے کہ روح کا تعلق جسم سے منقطع ہوجائے۔ قرآن وحدیث کے نصوص واشارات سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’موت‘‘ کے وقت روح نکالی جاتی ہے، آسمانوں کی طرف لے جائی جاتی ہے، پھر اپنی مقرر جگہ پر رکھی جاتی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قبر کی طرف لوٹائی جاتی ہے۔

Thursday, August 18, 2022

دفتر میں نوکری کرنے والے ہر دوسرے شخص کو لگتا ہے کہ آلو کے

 دفتر میں نوکری کرنے والے ہر دوسرے شخص کو لگتا ہے کہ آلو کے چپس کا ٹھیلہ لگانے میں بہت فائدہ ہے، بندہ بریانی کا پتیلا لے کر سڑک کنارے کھڑا ہو جائے تو تا حد نگاہ قطار لگ جائے گی، کسی کا کرش چاٹ چھولے وغیرہ پر ہے.

یہ سمجھ لیں کہ کسی بات پر باس نے دو جملے کیا سنا دیے، ہر آفس ورکر کے اندر چھپا Elon Musk انگڑائی مار کر کھڑا ہو جاتا ہے اور بزنس کا پہلا مشورہ جو اسے ملتا ہے، وہ چپس کے ٹھیلے، بریانی کے پتیلے اور چائے کے ڈھابے کے گرد گھومتا ہے.
میں یہ نہیں کہہ رہی کہ بزنس نہ کریں. جس کو شوق ہے، بالکل کرے. لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کہ آپ کے اندر ایک ایسا جوالہ مکھی چھپا ہوا ہے جو آفس کی روٹین لائف نے یخ ٹھنڈا کر دیا ہے اور اگر آپ بزنس میں پاؤں رکھ دیتے تو موٹیویشنل سپیکر آپ کو انگلی پکڑ کر دنیا کے عظیم ترین انسانوں کی فہرست میں کھڑا کر دیتے. عین ممکن ہے کہ جتنے بڑے ڈفر آپ نوکری میں ہیں، اس سے کہیں زیادہ فلاپ بزنس میں ثابت ہوتے. آفس میں تو پھر بھی ٹیم ورک کی وجہ سے آپ کا گزارا ہو جاتا ہے، اکیلے تو آپ بالکل ہی رانداۓ درگاہ ہو جاتے.
پھر جس کو لگتا ہے کہ آلو کے چپس یا بریانی کا ٹھیلہ زبردست کمائی کا ذریعہ ہے، اسے چاہیے کہ ایک بار گلی کے کونے پر کھڑے چپس والے کے گھر کا چکر بھی لگا لے. شہر کے چوک پر جو بریانی والا آپ کی inspiration ہے، پتہ کر لیں کہ اس کے بچے کون سے سکول میں پڑھتے ہیں. اندازہ ہو جائے گا کہ وہ نوکری جو آپ کو گلے کا پھندا لگتی ہے، جس کی وجہ سے موٹیویشنل سپیکر کے مطابق دنیا آپ کے اندر چھپی ہوئی ایک نابغہ روزگار عالمگیر شخصیت کے جوہر دیکھنے سے محروم ہے، آپ کو اس بریانی والے کے مقابلے میں کیسا معیار زندگی دینے کا ذریعہ ہے.
لہٰذا اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں. یہ عملاً ممکن نہیں ہے کہ ہر بندہ بزنس میں کود پڑے. دوسرا یہ کہ اگر آپ کے نزدیک نوکری غلامی ہے تو بھائی، آپ کا بزنس جب پھلے پھولے گا تو آپ خود بھی لوگوں کو نوکری پر رکھیں گے، یعنی لوگوں کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالیں گے، توبہ توبہ. اس فلسفے کے مطابق تو یہ نوکری کرنے سے بھی زیادہ معیوب چیز ہوئی کیونکہ آپ دوسروں کو غلام بنا رہے ہیں. اللہ نے جو کچھ دیا ہے، اس پر شکر کریں. بزنس پلان کرنے کے لیے نوکری سے متنفر ہونا ضروری نہیں ہے. ہمہ وقت reactive approach شدید نقصان دہ ثابت ہوتی ہے. احتیاط کریں.
YASIR RAHIM💖💖

Wednesday, August 17, 2022

سامان سے لدا ہوا ایک بحری جہاز محو سفر تھا کہ تیز ہواوں کی وجہ سے وہ الٹنے لگا۔

 سامان سے لدا ہوا ایک بحری جہاز محو سفر تھا کہ تیز ہواوں کی وجہ سے وہ الٹنے لگا۔ قریب تھا کہ جہاز ڈوب جاتا، اس میں موجود تاجروں نے کہا کہ بوجھ ہلکا کرنے کیلئے کچھ سامان سمندر برد کرتے ہیں ۔ تاجروں نے مشورہ کرکے طے کیا کہ سب سے زیادہ سامان جس کا ہو، وہی پھینک دیں گے۔ جہاز کا زیادہ تر لوڈ ایک ہی تاجر کا تھا۔ اس نے اعتراض کیا کہ صرف میرا سامان کیوں؟ سب کے مال میں سے تھوڑا تھوڑ پھینک دیتے ہیں ۔ 

انہوں نے زبردستی اس نئے تاجر کو سامان سمیت سمندر میں پھینک دیا۔ قدرت کی شان کہ سمندر کی موجیں اس کے ساتھ کھیلنے لگیں۔ اسے اپنی ہلاکت کا یقین ہوگیا،جب ہوش آیا تو کیا دیکھتا ہے کہ لہروں نے اسے ساحل پر پھینک دیا ہے۔ یہ ایک غیر آباد جزیرہ تھا۔ جان بچنے پر اس نے رب کا شکر ادا کیا۔ اپنی سانسیں بحال کیں. وہاں پڑی لکڑیوں کو جمع کرکے سر چھپانے کیلئے ایک جھونپڑی سی بنائی. اگلے روز اسے کچھ خرگوش بھی نظر آئے۔ ان کا we کرکے گزر بسر کرتا رہا۔ ایک دن ایسا ہوا کہ وہ کھانا پکا رہا تھا کہ اس کی جھونپڑی کو آگ لگ گئی۔ اس نے بہت کوشش کی، مگر آگ پر قابو نہ پا سکا۔اس نے زور سے پکارنا شروع کیا، تو نے مجھے سمندر میں پھینک دیا۔ میرا سارا سامان غرق ہوگیا۔ اب یہی جھونپڑی تھی میری کل کائنات، اسے بھی جلا کر راکھ کر دیا۔ اب میں کیا کروں؟ یہ شکوا کرکے وہ خالی پیٹ سو گیا۔ صبح جاگا تو عجیب منظر تھا۔ دیکھا کہ ایک کشتی ساحل پر لگی ہے اور ملاح اس3ے لینے آئے ہیں۔  اس نے ملاحوں سے پوچھا کہ تمہیں میرے بارے میں کیسے پتہ چلا؟ انہوں نے جو جواب دیا، اس سے تاجر حیران رہ گیا۔ ملاحوں نے کہا کہ ہمیں پتہ تھا کہ یہ جزیرہ غیر آباد ہے، لیکن دور سے دھواں اٹھتا ہوا نظر آیا تو سمجھے شاید کوئی یہاں پھنسا ہوا ہے، جسے بچانا چاہئے۔ اس لئے ہم تمہارے پاس آئے۔ پھر تاجر نے اپنے پورا قصہ سنایا تو ملاحوں نے یہ کہہ کر اسے مزید حیران کر دیا کہ جس جہاز سے تمہیں سمندر میں پھینکا گیا، وہ آگے جا کر غرق ہوگیا۔ یہ سن کر تاجر سجدے میں گر گیا، رب کا شکر ادا کرنے لگا اور کہا کہ پاک ہے وہ ذات جس نے مجھے بچانے کیلئے تاجروں کے ہاتھوں سمندر میں پھنکوایا۔ اپنے بندوں کے بارے میں وہی زیادہ جاننے والا ہے۔

 حالات جتنے بھی سخت ہو جائیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں۔ ہر حال میں اپنے رب پر بھروسہ رکھیئے

insan ko apny rab ka shukar ada karna chayea❤️❤️❤️❤️❤️

Yasir Rahim❤️

افغانستان دریائے کابل میں جو اس وقت سیلاب چڑھا ہوا ہے اس نے دریاۓ سندھ میں آ کر شامل ہونا ہے۔ پختونخواہ میں جو طوفانی بارشیں اور سیلاب آیا ہ...